یہ دل سبھی کو اب خفا کرنے میں لگ گیا
وہ تیسرا ہمیں جدا کرنے میں لگ گیا
وہ اپنے زخم کو دوا کرنے میں لگ گئی
میں اپنے زخم کو دوا کرنے میں لگ گیا
اک شام اور چند ستم کچھ نئے سے خط
اک روز حشر یاں بپا کرنے میں لگ گیا
اس نے کہا محبتیں ملتی ہی اب کہاں
سو میں بھی یارو اب دغا کرنے میں لگ گیا
بوسہ تو دور کا ہے سفر تم کو کیا خبر
اک وقت تو پتہ پتا کرنے میں لگ گیا
جس کا ہر ایک تل مجھے پہلے ہی ہے پتا
میں آج اس سے یوں حیا کرنے میں لگ گیا
درویش نے کہا اسے ایسے ملیگا وہ
یہ شخص جانے کیا کیا کرنے میں لگ گیا
دل توڑنا برا ہے کہا کس نے ہے تمہیں
اس کو وہ ٹھیک ہے لگا کرنے میں لگ گیا
غزلیں بھی کب تلک رہیں عورت کی بات بس
میں کچھ تو دوستو نیا کرنے میں لگ گیا
تیرے ہجر سےنکلیں تو جائیں کہاں کو ہم
یہ کام خود کو خود سزا کرنے میں لگ گیا
ہم کو ہی وقت کب ملا کچھ پیار کرنے کو
سارا زمانہ تو وفا کرنے میں لگ گیا
یہ کٹ گیا ہجوم سے اور اب اکیلا ہی
جگنو تو چاند کا دوا کرنے میں لگ گیا
یہ ہے شراب اور دھواں بہتا ہے رگ میں جو
خوں تو عذابِ جاں بڑا کرنے میں لگ گیا
تجھ کو لگا ہے مل گیا وہ شخص ایسے ہی
سامان قیمتی دعا کرنے میں لگ گیا
میں نے قلم اٹھا کے لکھی اک غزل نئی
دیوؔان تو نماز ادا کرنے میں لگ گیا