یہ دِل کی تمنا ہے کہ اِس دل میں رہا کر
خواہش کو کبھی دیس نکالا نہ دِیا کر
میں نفرتِ احباب کے صدمے سے نبٹ لوں
اے زندگی لازم ہے کہ تو مجھ سے وفا کر
تجھ کو بھی کچل ڈالا ہے دنیا کی ہوس نے
میں نے نہ کہا تھا کہ زمانے سے بچا کر
یہ دِل کہ تیری یاد سے غافِل نہیں رہتا
دیکھا ہے اسے اور بھی کاموں میں لگا کر
میں عمر گزاروں گا اسی قید میں رہ کر
کب میں نے کہا پیار کے زنداں سے رہا کر
جس شخص نے دنیا کیلئے ہم کو بھلایا
اِک روز وہ آئے گا زمانے کو بھلا کر
اے واعظِ منبر ہے نصیحت میری تجھ کو
کچھ کام تو دنیا میں فسادوں کے سوا کر
اک روز ہے اس مٹی کے نیچے تجھے جانا
اس طرح نہ اترا کے زمیں پر تو چلا کر
عارف جو حقیقت ہے وہ باتوں میں کہاں ہے
ممکن ہو تو لوگوں کی نگاہوں کو پڑھا کر