مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کر لی
یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کر لی
فغاں تو عشق کی اک مشق ابتدائی ہے
ابھی تو اور بڑھے گی یہ لے ابھی کر لی
تمام عمر اسی رنج میں تمام ہوئی
کبھی یہ تم نے نہ پوچھا تری خوشی کر لی
تم اپنے ہو تو نہیں غم کسی مخالف کا
زمانہ کیا ہے فلک کیا ہے مدعی کر لی
دلوں کو کھینچ رہی ہے کسی کی مست نگاہ
یہ دل کشی ہے تو پھر عذر مے کشی کر لی
مذاق عشق کو سمجھو گے یوں نہ تم ناصح
لگا کے دل کہیں دیکھو یہ دل لگی کر لی
وہ رات دن نہیں ملتے تو ضد نہ کروشمہ
کبھی کبھی کی ملاقات بھی بری کر لی