یہ سامنے کوئی میرے جیسا ہے کہ میں ہوں
آئینہ میری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ میں ہوں
اے صاحبِ شب! تجھ سے مجھے پو چھنا یہ ہے
ہمراہ میرے اندھیرا ہے کہ میں ہوں
اے خو فزدہ شخص! میرے پاس چلا آ
قسمت تیری اچھی ہے یہ اچھا ہے کہ میں ہوں
کھلتی ہی نہیں مجھ پہ حقیقت میری اپنی
عاصم میرے اندر کوئی مجھ سا ہے کہ میں ہوں