یہ سلگتی شام پہ جلتی سحر دیکھے گا کون
اور وہ بھی روشنی کے نام پر دیکھے گا کون
کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیا ہم نے مگر
بولنے کے شوق میں چپ کا ہنر دیکھے گا کون
روشنی کے واسطے خود پھونک ڈالا اپنا گھر
دیدنی ہے یہ تماشا بھی مگر دیکھے گا کون
چھوڑ کر رہبر مجھے اب اپنی اپنی راہ لیں
منزلوں کے نام پر گرد سفر دیکھے گا کون
سوچتے ہیں لوٹ جائیں پھر سے جنگل کی طرف
بستیوں میں رات دن رقص شرر دیکھے گا کون
ڈوب جانا پار ہونے سے بھی ہے بہتر مگر
کون فرحتؔ کی سنے گا ڈوب کر دیکھے گا کون