ہر سمت یہ ایک دہائی ہے سب کے ہمراہ چل پڑتا ہے
یہ عشق نہیں رُسوائی ہے سب کے ہمراہ چل پڑتا ہے
اِک چاند صفت محبوب کے بارے ہم کو یہ معلوم نہ تھا
یہ چاندبھی اِک ہرجائی ہے سب کے ہمراہ چل پڑتا ہے
ہر بار وفا کی راہوں میں اس دل نے ٹھوکر کھا کھا کر
اب عادت یہ اپنائی ہے سب کے ہمراہ چل پڑتا ہے
غم چھوڑ زمانہ تیرے لئے دستور اپنا کیوں بدلے گا
یہ آوارہ پُروائی ہے سب کے ہمراہ چل پڑتا ہے
یہ بات صفی کچھ ٹھیک نہیں اب تو بھی اپنی رہ پر چل
اس بات میں بھی رُسوائی ہے سب کے ہمراہ چل پڑتا ہے