یہ غم پھر سے ابھرتا جا رہا ہے
مجھے حیران کرتا جا رہا ہے
سنا معیار گرتا جا رہا ہے
مگر بندہ نکھرتا جا رہا ہے
مجھے یہ کیا ہوا ہے کچھ دنوں سے
ترا احساس مرتا جا رہا ہے
اماں اس خواب کو بھی کیا کہیں اب
بکھرنا تھا بکھرتا جا رہا ہے
ترا خاموشیوں کو وقت دینا
صداؤں کو اکھرتا جا رہا ہے
ہمیں نے ہی اسے رستہ دیا تھا
ہمیں پہ پاؤں دھرتا جا رہا ہے
پرانی دیکھ کر تصویر تیری
نیا ہر دن گزرتا جا رہا ہے
میں جتنی اور پیتا جا رہا ہوں
نشہ اتنا اترتا جا رہا ہے
سنا ہے میتؔ خوابوں سے نکل کر
وہ آنکھوں میں ٹھہرتا جا رہا ہے