نہ جس کو چاہوں وہی کام مجھ کو کرنا ہے
کچھ اور زہر ابھی زندگی میں بھرنا ہے
کہا جو تم نے اسے سچ کہوں یا جھوٹ کوئی
یہ فیصلہ بھی مگر آہ تم نے کرنا ہے
کہا یہ کس نے کہ میں موت سے گریزاں ہوں
تمھارا در ہے تو پھر آج کیسا ڈرنا ہے
بقائے زیست انھیں دے کے ہو گا کیا حاصل
کہ مفلسوں کو یہاں بار بار مرنا ہے
سماج میں ہیں بہت تلخیاں و رنج و فغاں
ہمیں بھی ایسے ہی حالات سے گزرنا ہے