یہ مت سمجھو جو روتا ہے وہی بیمار ہوتا ہے
یہ ہنسنا بھی مسلسل درد کا اظہار ہوتا ہے
عجب ہے حادثہ اک یہ بھی تاریخِ محبت میں
جو دشمن جاں کا ہوتا ہے اسی سے پیار ہوتا ہے
محبت جبر ہے تقدیر ہے تحریر ازلی ہے
محبت میں بھلا کب کوئ خود مختار ہوتا ہے
تماشا دیکھنے کا ہوتا ہے تب رقصِ بسمل کا
تیرا تیرِ نظر جب بھی جگر کے پار ہوتا ہے
قدم رکھا ہی کیوں تھا تو نے کوچہِ ملامت میں
محبت میں تو یہ آخر میری سرکار ہوتا ہے
یوں لگتا ہے مجھے جیسے جدائی مار ڈالے گی
جدائی میں ہر اک لمحہ بہت دشوار ہوتا ہے