یہ محبت میں نہیں تم ہارے ہو
Poet: Majassaf imran By: Majassaf imran, Gujratبہت رنگ تھے میری زندگی
سبھی رنگ تجھ پہ لٹا دیے
دیا ہے تونے عجیب جواب
میرے سارے قرض جھکا دیے
میرے خوش و خواس کسی اور جا
میں رہتا ہوں کسی اور جا
مقدر کا اپنے دشمن بنا
تونے لبوں پہ سگرٹ لگا دیے
میری آنکھیں تم نے نوچ لی
میرے خواب سبھی چھین گے
میں صحراؤں بٹکا مسافر
تونے سارے راستے جلا دیے
میری فکر میں صبح و شام تم
میرے اندر موجود سبھی آرام تم
تم کس دنیا کی ایجاد ہو
میں نے کتنے وہم ہیں دیکھو پال لئے
میری عمر سے بچپن نکلا ہی
تو نے کاغذ قلم تھما دیا
میں ہاتھ سے بوئےتھے سبھی گل
کل رات سبھی مر جاگئے
اب ہاتھ ہیں خالی محبت سے
کبھی ہاتھ تھے تیرے ہاتھ میں
ابھی باقی تھی نصف شب
تونے سبھی چراغ بجا دیے
اک وعدہ عمر بھر ساتھ کا
اک وعدہ بیان ہوتا نہیں
سبھی رابط تو نے توڑ دیے
سبھی کل ماضی بنا دئیے
تو نےآگ لگائی قفسہ سینے میں
میں بوند بوند نگینے میں
میں تنکہ تنکہ خاک ہوا
تو نے پر ہی میرے جلا دیے
تونے کہا تھا بدل گئی ہوں
تجھ سے دل سے محبت کر گئی ہوں
لمحہ لمحہ مجھے خود میں پرو کر
تونے پھر سے مراسم بڑا لئے
میرے کس گناہ کی یہ سزا تھی
میرے کس جرم کا حساب تھا
میری سبھی خوشیاں چھین کر
مجھے اشک تونے تھما دیے
تونے کہا تیرے بغیر نہیں رہ پاوں گی
تونے نہ ملا تو مر جاوں گی
تونے قسمیں کھائی احد کیے
سبھی نیم صبح ہی بھولا دیے
تیری جھوٹی محبت میں ہار گیا
میں پاگل تیرا اچھا وقت گزار گیا
اب نئے یارانوں فرست نہیں
کتنے گہرے تعلق بنا لیئے
سنو! محبت میں نہیں تم ہارے ہو
تیری زندگی میں حقیقت نام نہیں
میں پاگل ہوا تیرے عشق
تم اپنی قسمت پہ بھارے ہو
سنو! تو اس قابل نہیں تمھیں چاہ جائے
یہ بات دیر سے معلوم ہوئی
تم بازاری عورت میں ادب سے جھڑا
یہ محبت میں نہیں تم ہارے ہو
سنو! تم جتنی بھی محبت کرو لو
رقیبوں کو آنکھوں پہ در لو
تم در در مارے ہو کردار اپنا ہارے ہو
یہ محبت میں نہیں تم ہارے ہو
سنو! کوئی لے اگر نام میرا بات کو تم ٹال دینا
کوئی اور بات تم چھیڑ لینا
نہیں اجازت کہ تیری زباں پہ میرا نام ہو
یہ محبت میں نہیں نفیس تم ہارے ہو
یہ محبت میں نہیں تم ہارے ہو
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






