یہ منتشر مُراد قافلہ یوں لشکر کھودیتا ہے
جیسے صحرا کا بھٹکا مسافر اپنا گذر کھودیتا ہے
نظاروں کے پیچھے تو سرگردان ہیں کہانیاں
کہیں نگاہ کا سرور اپنی نظر کھودیتا ہے
وہاں دل جوڑدو جہاں مزاج یکسانی ہو
ہر پہلو سے جڑ جانا قدر کھودیتا ہے
عمل خیر کے بعد بھی کوئی بخشش نہ ملے
ایسے اس جہاں کا احساس اَثر کھودیتا ہے
جس نے اپنی دہڑکن میں سرد آہ نہیں پائی
جدت میں آکر وہ دیوانہ جگر کھودیتا ہے
یہ حالات اور ہم! کتنا ترسیں گے سنتوشؔ
مجھے تو اپنی زندگی کا فکر کھودیتا ہے