یہ میرے ہاتھوں پہ لکیریں تو نہیں
کچے مکاں کی دیوار پہ دراڑیں لگتی ہیں
یقین کرو محبتیں کبھی نہیں مرتیں
جیتے جاگتے کردار کی یہ آہیں لگتی ہیں
انجانے میں کسی کا دل دکھا دیا ہو گا
یہ سزائیں بچھپن کی شرارتیں لگتی ہیں
اک مکاں چھوڑ کر ہر سو روشنی ہے
کوئی کلی نہیں کھلتی،روٹھی بہاریں لگتی ہیں
اس تاریکی میں اک چہرہ نظر آرہا ہے
مجھے پکارتی ہوئی اس کی یادیں لگتی ہیں
لوگوں کو مجھ سے نجانے کیوں شکایت ہے
یہ تو صدیوں پرانی عداوتیں لگتی ہیں