یہ ویرانی دل کی
ہم سے دیکھی نہیں جاتی
یہ ویرانی دل کی
کوئی سمجھا ہے
نا سمجھے گا
کہانی دل کی
تمنّا عشق کی جو
برباد کر گئی ہم کو
ہم جسے آج بھی کہتے ہیں
نادانی دل کی
جب بھی دیکھا اُسے
دل کی دھڑکن
نہ پھر سنبھل پائی
اب بھی
منسُوب
اُسی سے ہے
روانی دل کی
ہم نہ بدلے
مگر دنیا بدل گئی
وہی دل ہے
وہی عادت ہے
پرانی دل کی