یہ چارہ گر تو یہاں ہر گلی میں ملتے ہیں
کوئ بتاو کہاں دل کے چاک سلتے ہیں
تیرے بدن کی صبا کس چمن میں چلتی ہے
کہاں پہ اب ترے ہونٹوں کے پھول کھلتے ہیں
وہ جن کے اشک بچھڑتے ہوئے نہیں تھمتے
ملیں بچھڑ کے تو کیوں بے رُخی سے ملتے ہیں
غلط گُمان نہ کر میری خُشک آنکھوں پر
سمندروں میں جزیرے ضرور ملتے ہیں
ہے رسمسی سی تیری یاد میں فضائے خیال
کہ جیسے تیرگی شب میں پھول کھلتے ہیں
ملا ہے راہ میں ایسا فساد شیشہ و سنگ
رکوں تو پاؤں ہٹاؤں تو ہاتھ چھلتے ہیں