یہ کارواں جو بناِ رہنما کے چلنے لگے
اسی لیے تو سبھی راستے بدلنے لگے
کچھ اس طرح سے طبیت ہے تیری فرقت میں
کہ جیسے کچے مکاں میں چراغ جلنے لگے
مری طرگ سے عدالت میں کون بولے گا
مرے وکیل بھی اپنا بیاں بدلنے لگے
ہماری سمت سے بد نام ہو نہ جائے کہیں
اسِ احتیاط سے ہم شہر سے نکلتے لگے
ہوائے شہر تخیل ہے اس طرح گم صم
کہ جیسے حسن کسی مہ جبیں کا ڈھلنے لگے
جہنوں نے ترک تعلق کیا تھا خود وشمہ
بچھڑ کے مجھ سے وہی دوست ہاتھ ملنے لگے