یہ کام دوسروں سے نہ لے یار ، تو ہی کر
میں ترا شہر ہوں مجھے مسمار تو ہی کر
تو نے ہی پھول بوئے تھے ، انصاف تو یہ ہے
اپنے لہو سے پرورشِ خار تو ہی کر
ترکِ تعلقات کی نوبت تو آچکی
لیکن جواز ڈھونڈ کر اظہار تو ہی کر
فرما رہے ہیں وہ مجھے اعزاز بخش کر
لے اب حفاظتِ سرو دستار تو ہی کر
اپنا مکالمہ تو مکینوں کے ساتھ ہے
پیارے ، ستائشِ در و دیوار تو ہی کر