یہ کب کہا تھا نظاروں سے خوف آتا ہے
مجھے تو چاند ستاروں سے خوف آتا ہے
میں دشمنوں کے کسی وار سے نہیں ڈرتا
مجھے تو اپنے ہی یاروں سے خوف آتا ہے
خزاں کا جبر تو سینے پہ روک لیتے ہیں
ہمیں اُداس بہاروں سے خوف آتا ہے
ملے ہیں دوستو بیساکھیوں سے غم اتنے
میرے بدن کو سہاروں سے خوف آتا ہے
میں التفات کی خندق سے دور رہتا ہوں
تعلقات کے غاروں سے خوف آتا ہے