خوشبوں نے حصار ڈالا ہے
پھر سے رنگِ بہار ڈالا ہے
جب بجھے ہیں چراغ آنکھوں کے
کس نے بانہوں کا ہار ڈالا ہے
بزمِ ساقی میں جھومتا ہے دل
آنکھوں میں کیا خمار ڈالا ہے
زندگی نے بھی آج آنکھوں سے
اپنا چشمہ اتار ڈالا ہے
موت آنکھیں چرائے گی کیسے
زیستِ فانی کو ہار ڈالا ہے
یہ" کرونا " تو وشمہ کچھ بھی نہیں
مجھ کو اپنوں نے مار ڈالا ہے