یہ کس لئے ہے تو اتنی اداس ہے وشمہ
پہن لیا ہے جو کالا لباس ہے وشمہ
تو شام رنگ ہوا جا رہا ہے صبح سے کیوں
جھلکتی ہے تری صورت سے یاس ہے وشمہ
نہارتے ہو یہ کس کس کو نیم وا ہو کر
پرائے دیس میں کیسی یہ آس ہے وشمہ
حنائی ہاتھ کے وہ لمس چھن گئے جن سے
بنے ہوئے ہیں سراپا سپاس ہے وشمہ
مکیں مکاں میں نہ ہوگا تو پھر کہاں ہوگا
یہیں کہیں ہے ترے آس پاس ہے وشمہ
لباس اور ہے لیکن میں کوئی اور نہیں
مجھے تو بھول گیا روشناس ہے وشمہ
مجھے بھی حیرت و حسرتؔ نے بت بنا ڈالا
تجھے بھی زندگی آئی نہ راس ہے وشمہ