یہ گماں ہوا کہ کٹ کے بکھر گیا تھا
وہ سر جو نوک ِ سناں پہ نکھر گیا تھا
صبح دم جو ہمنوا اپنی مسافت کا تھا
شام ڈھلتے ہی وہ دیا ، کدھر گیا تھا
پھر یوں یاد کرنے لگے لوگ 'سقراط' کو
اک بغاوت کرنے والا مر گیا تھا
تب جا کر میں اس کے دل میں اترا
جب وہ میرے دل سے اتر گیا تھا
شاید حسن ہی تھی کالک اسکے بدن کی
بڑھاپے میں اسکا لہجہ ، سنور گیا تھا
تاریخ گواہ بحر و بر کا وہ سکندر ہوا
کشتیاں جلا کے جو ، مومن مرد گیا تھا
رو پڑیں گلے لگ کے دیواریں 'عدن' ؑ
شاید مدت بعد وہ آوارہ ، گھر گیا تھا
سکوتِ شب سے انتخاب