یہاں کی دھوپ مجھے چھاؤں جیسی لگتی ہے
کہ یہ گلی تو ترے گاؤ ں جیسی لگتی ہے
یہ ننھے ہاتھوں میں کِس نے تھما دیا کشکول ؟
تمہاری شکل تو راجاؤں جیسی لگتی ہے
سنا ہے میں نے وہ لڑکی نییٔ سہاگن ہے
تو کیوں وہ شکل سے بیوأوں جیسی لگتی ہے ؟
ہو کویٔ ملک ، زباں یا کویٔ بھی ہو تہذیب
ہر ماں ہی سبھی ماؤں جیسی لگتی ہے
ضروُر اس میں چھپا ہے کویٔ بڑا طوُفان
تِری خموشی جو دریاؤں جیسی لگتی ہے
تو کیا یہ سچ ہے تجھے آرزوُ ہے چاہت کی ؟
یہ آرزوُ مِری آشاؤں جیسی لگتی ہے