یہی تھا جانِ من ، بالکل ہمارا حال پہلے بھی
یہی ہم سوچتے تھے آج سے کچھ سال پہلے بھی
ردائے خواب سے باہر نہیں نکلے ہیں ہم اب تک
ستاروں سے بھری اوڑھے ہوئے تھے شال پہلے بھی
اسی دامن سے آنسو پونچھتے تھے خلوتوں میں ہم
اسی مٹی میں رلتے تھے ہمارے لال پہلے بھی
درو دیوار ہی سنتے تھے سارے شہر کے دکھڑے
یہی تھا دامعینِ محترم کا کال پہلے بھی
یہی دامن تھا جس کی دھجیوں پر شعر لکھتے تھے
ہمارا شہر میں تھا میر جیسا حال پہلے بھی
یہ عشق آرزو پہلے بھی گلیوں میں پھراتا تھا
گلے کا طوق تھا کم بخت یہ جنجال پہلے بھی
نئی اب کون سی حالات کی صورت نکل آئی
یہی ہم تھے ، یہی تم تھے ، یہی احوال پہلے بھی