اِک تَجَسسوس اسکے انداز میں چھُپا ہوتا یے
جیسے انجام کسی آغاز میں چھُپا یوتا یے
وہ اپنے رقیبوں سے یوں میرا ذکر کرتا ہے
جیسے کوئ راز کسی راز میں چھُپا ہوتا ہے
اُسے کہہ دو نہ مجھ سے یوں پیش آئے
جیسے گھمنڈ کسی ناز میں چھُپا ہوتا ہے
خواہشیں روندنا ، ارمانوں کا خُون کر دینا
کیا یہی سلوک تیرے اِعزاز میں چھُپا ہوتا ہے؟
ہوا کی سَنسَناہٹ تنہایؤں میں سنتا ہوں
عجب سکون اس مَدھور ساز میں چھُپا ہوتا ہے
حَسیِن بچپن، جوانی اور سُکھ دُکھ کی کہانی
یہی خَزانہ عمرِ دراز میں چھُپا ہوتا ہے
اس قدر مانوس ہوں میں درد کی حِدت سے
اب اس کا لہجہ میری آواز میں چھُپا ہوتا ہے
آدم زاد اس دنیا کا وہ مخلوق ہے حُسینؔ
جسکا زہر اسکے الفاظ میں چھُپا ہوتا ہے