یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں

Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
ہمارے بھولنے والے بھی اس عذاب میں ہیں

اسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں

وہی ہے رنگِ جنوں ، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تری ہی دھن میں ہیں اب تک اسی سراب میں ہیں

عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سوکھے ہوئے پھول اس کتاب میں ہیں

شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اک شہرِ زیر آب میں ہیں

Rate it:
Views: 454
27 Aug, 2011