عجب اک ناشناسی ہے اس کی باتوں میں
جیسے مجھ کو اب بھلایا جا رہا ہے
بنا کر منصوبہ میرے قتل کا
مجھے دعوت پر بلایا جا رہا ہے
عجیب بات ہے کہ تیرا نام لیکر
میرے دل و جاں کو جلایا جا رہا ہے
اے دل ذرا درمیاں سے ہٹ تو سہی
آج میرا صبر آزمایا جا رہا ہے
سچ بول کر مجھ کو شکست ہوئی
اب مجھ کو جھوٹ سکھایا جا رہا ہے
یہاں پیاس سے لوگ مرتے ہیں روز
وہاں سڑکوں پر خون بہایا جا رہا ہے
کچھ نہیں دل تو یونہی اداس ہے
غم میں مسکرایا جا رہا ہے
آج دوستوں کی فہرست سے
میرا نام مٹایا جا رہا ہے