لکھنے بیٹھوں تو کبھی تھک نہ پاؤں
ایسے حسین لفظ کہاں سے لاؤں
لکھنے بیٹھی ہوں ماں کے نام
جنت کے ہیرے کہاں سے لاؤں
جس کے ہنسنے سے کھلتے ہیں گل
اس کی شان میں لفظ کہاں سے لاؤں
چاندنی چاند سے، مٹھاس شہد سے لےآؤں
بھر کر اس سے سیاہی گلاب پر لکھتی جاؤں
خلوص کا پیکر ،جنت کی دلیل ہے ماں
ہر حسین خواب کی تعبیر ہے ماں
ہمارے اک آنسو پہ جان نثار کرتی ہے ماں
ایسی عظیم ہستی کے لائق الفاظ کہاں سےلاؤں
پڑھ لیتی ہے آنکھیں،سمیٹ لیتی ہے ہر غم
ہر سخن دعا سے لبریز ،ہر دعا ہمارے نام
جس کے رونے پر فرشتے روئیں وہ ہے ماں
ایسی عظیم ہستی کے لائق الفاظ کہاں سے لاؤں