غرض کی دنیا سے گبھراؤ تو آواز دینا
کبھی زندہ ضمیر اپنا پاؤ تو آواز دینا
نفرت عداوت فریب غرض کا دیس چھوڑ کر
کبھی میرے شہر جو تم آؤ تو آواز دینا
محبت الفت چاہ چاہت اور وفا کے نام پر
میری طرح تم بھی زخم کھاؤ تو آواز دینا
چلتے چلتے دور کہیں صحرا کی ویرانیوں میں
خود کو جو کبھی تنہا پاؤ تو آواز دینا
اپنی خطاؤں پہ کبھی پشیمان ہو کر ساجد
تنہائی میں جو آنسو بہاؤ تو آواز دینا