آئینِ جفا ان کا سمجھے تھے نہ ہم پہلے
ہوتا ہے ستم پیچھے کرتے ہیں کرم پہلے
کیوں سیرِ گلستاں پر ہے چیں بجبیں کوئی
زنداں میں بھی رکّھا تھا میں نے ہی قدم پہلے
آباد رہیں دونوں بُت خانہ بھی کعبہ بھی
یہ بات نہ تھی تم میں اے شیخِ حرم پہلے
ہنستے ہیں گلستاں میں پھر جا کے کہیں غنچے
کرتی ہے دعا شبنم بادیدئہ نم پہلے
ہوتی نہ اگر کُلفت کیا لطف تھا راحت میں
رہتی ہے مسرّت بھی منّت کشِ غم پہلے
کوشاں ہیں نکلنے کو یوں جاں بھی تمنّا بھی
وہ کہتی ہے ہم پہلے یہ کہتی ہے ہم پہلے
ہے نورِ حقیقت کا جویا تو مگر زاہد
اس راہ میں ملتے ہیں انوارِ صنم پہلے
برہم انھیں کرنے کو مجرم مری آنکھیں ہیں
کچھ کہہ نہ سکا ان سے یہ ہوگئیں نم پہلے
بخشا ہے محبت نے کچھ رنگِ اثر شاید
تھا تم میں کہاں اخترؔ یہ زورِ قلم پہلے