آتش عشق میں بڑی دیر تک جلایا خود کو
پھر تیری یاد میں یوں بھٹکے کہ بھلایا خود کو
میرے غم سے تیرے چہرے کی چمک بڑھ جاتی ھے
تو جو ہنس دے گی یہی سوچ کر رولایا خود کو
بن تیرے لمحے جو عذابوں سے گزرتے ہیں اکثر
رات قاتل نہ بنے اسی سوچ میں جگایا خود کو
میری آنکھوں میں تیرے چہرے کا بسیرا ھے کب سے
یوں اپنے ہی عکس سے بڑی دیر تک ملایا خود کو
بدلی بدلی سی فضاؤں میں ھے ٹہری درد کی شدت
پھر اسی صحرا سے یوں گزرے کہ آزمایا خود کو