آج آہستہ آہ کر لینا
تم بھی نیچی نگاہ کر لینا
اپنی دنیا تباہ کر لینا
بزم میں واہ واہ! کر لینا
جذبہ دل پہ آنچ جب آئے
عشق اپنا گواہ کر لینا
گھر میں اپنے بلا کے ان کو تم
رونق مہر و ماہ کر لینا
حسن والوں کی کچھ کمی تو نہیں
پھر کہیں رسم و راہ کر لینا
دوستی سے بروں کی، بچتے رہو
خود کو مت روسیاہ کر لینا
شہر میں جب ہو کوئی فتنہ بپا
حسن پر اشتباہ کر لینا
روز محشر کا خوف کیا رومی
ان کو تم سر براہ کر لینا