آج اک اک بادہ کش مسرور میخانے میں ہے
تازہ تازہ اس کے، اس کے سب کے پیمانے میں ہے
شیخ جل اٹھے گا تو ! وہ شعلہ میخانے میں ہے
مے نہیں یہ ، اک دہکتی آگ پیمانے میں ہے
اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے ساری خلق کو
اک ادائے خاص ایسی ان کے دیوانے میں ہے
دیر بوتل کے اٹھانے میں لگے گی کچھ نہ کچھ
مجھ کو اتنی ہی بہت ہے ، جتنی پیمانے میں ہے
میکدے میں آنے والو ! میکدہ مت چھوڑنا
مرے جینے کا مزا کچھ ہے ، تو میخانے میں ہے
پی رہا ہوں۔ جی رہا ہوں، شاد ہوں، مسرور ہوں
زندگی ہی زندگی لبریز پیمانے میں ہے
دل کی بے کیفی کا یہ عالم ہوا بعد جنوں
لطف جینے کا نہ گلشن میں ، نہ ویرانے میں ہے
دھیان ہے آہٹ پہ، حسرت دل میں ہے، آنکھوں میں دم
ہم چلے دنیا سے ، ان کو دیر اگر آنے میں ہے
جاگ اٹھی قسمت ، مقدر جگمگا اٹھا نصیر
جلوہ فرما آج کوئی میرے کاشانے میں ہے