آج غِم حیات کا درد مِٹا رہا ہے اب کوئی
چلے آو کہ دنیا سے جا رہا ہے اب کوئی
ازل سے کہ دو رک جائے دو گھڑی کے لیے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے اب کوئی
وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جسے روٹھے ہوئے کو منا رہا ہے اب کوئی
پلٹ کے نہ آجاے پھر سانس نبضوں میں
اپنے ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے اب کوئی