آج نجانے کیا ہوا
ایسا لگا
جیسے کوئی نعمت مجھ سے چھن گئی
وہ رجائیت، وہ اطمینان قلب کھو گئے
جیسے جسم سے روح ہی نکل گئ
کیا کرے بندہء ناچیز اس عالم ستم گر میں
ذرا سکون ملا تو یک دم تلوار سی کھب گئ
اس خارزار جہاں میں تھی امید کی سردبازاری،
بس اک'عفان'ہی سمجھا تھا کہ اسکی قسمت کھل گئ
بس کیا ہوا کہ میں نے خود ماری اپنے پیر پر کلہاڑی
بس کیا کہوں آج پھر سے نماز عسر مجھ سے چھٹ گئی