آج پھر ان سے ملاقات کے دن یاد آئے
ان سے وابستہ ہر اک بات کے دن یاد آئے
مدتوں بعد ان سے رابطے کا سلسلہ بندھا
گرم پہروں کی سرد برسات کے دن یا آئے
ہم تھے اک شہر اک محلے اک گلی کے مکیں
سابقہ ان سے اپنے ساتھ کے دن یاد آئے
ان کی نظروں سے وہ بےساختہ نظروں کا ملنا
دلے کے بدلے ہوئے حالات کے دن یاد آئے
ایک لمحے کے تصادم کا یہ عالم عظمٰی
اپنے دل کو جو ہوئی مات کے دن یاد آئے