آج پھر درد کی ندا جاگ اٹھی ھے
تڑپتے جی کی تمنا جاگ اٹھی ھے
تیرگئی شب میں روشنی بکھر گئی ھے
شائد ستاروںکی ضیا جاگ اٹھی ھے
زنداں کی دہلیز پہ یہ شورش کیوں ھے
لگتا ھے مقتل کی فضا جاگ اٹھی ھے
ارگرد انالحق کی آوازیں گونج رھی ھیں
خوابیدہ جزبوں کی جلا جاگ اٹھی ھے
امیر شہر کا تخت خطرے میں ھے
جب سے خلق خدا جاگ اٹھی ھے
جاگیردار غیض و غضب کی زد میںھے
محروموں کی حس شکوا جاگ اٹھی ھے
حسن پھولوں میں بےچینی دکھائی دیتی ھے
شاید پتوں میں بغاوت کی ھوا جاگ اٹھی ھے