ظلم کا دور اگرچہ نہ کبھی سہہ پایا
آج کہنے دو مجھے جو نہ کبھی کہہ پایا
یہ جو حاکم ہیں ، مرے ملک سے مخلص ہیں کہاں
حال گلشن کا ہے کیا ،طور ہے کیا مالی کا
کس قدر سادہ ہیں اس ملک کے مفلس انساں
جن کو احساس نہیں اپنی زبوں حالی کا
ہیں ابھی تک وہیں آباد گناہوں کے بازار
کیا محض عیش کی خاطر یہ خیاباں مہکا
اپنی بہنوں کو بنایا ہے طوائف کس نے
کس کے قدموں کے لیے ان کا شبستاں مہکا
کیا امیروں کے لیے اس کو بنایا تھا کبھی
کیا یہی پاک وطن ہے ، کیا یہی پاک زمیں
ہم خرابات سے نکلے تو کہاں آ کے رکے
کیا ریا کار نہیں “ شہر فیروزاں“ کے مکیں
ذکر اقبال بلند کرتے ہیں سلطان بہت
فکر اقبال کو پامال کیا ہے کس نے
ہر طرف حرص و ہوس کی ہیں فضائیں رقصاں
اپنی ہی قوم کا یہ حال کیا ہے کس نے
ہم نے تعظیم ہی سیکھی نہیں انسانوں کی
ہم نے دولت کو خدا اپنا بنا رکھا ہے
ہم گرفتار ہیں صرف اپنی ہوس کے ہاتھوں
ہم نے سچائی کو پردوں میں چھپا رکھا ہے
ظلم کا دور اگرچہ نہ کبھی سہہ پایا
آج کہنے دو مجھے جو نہ کبھی کہہ پایا