آؤ جہاں بھر میں خوشیاں بانٹیں
اپنے اپنے گھر کی روشنیاں بانٹیں
جتنے سوئے بےسائباں بےچارے لوگ
آؤ انہیں اپنے حصے کا آسماں بانٹیں
بوڑھی ہو گئیں جو غربت کی دہلیز پر
ان بے گھر بیٹیوں میں مکاں بانٹیں
میرے مالک ہمیں اتنا حوصلہ تو دے
بھوکے لوگوں میں ہم روٹیاں بانٹیں
چھین کر معصوم ہاتھوں سے فکرِمعاش
آؤ اصحابِ دانش ہم تختیاں بانٹیں
جن لہجوں میں بغاوت ہو نغمہ سرا
کیوں ناں ان میں ہم زباں بانٹیں
آؤ اس اجڑے گلشن میں وحید
پھول بانٹیں بہار و تتلیاں بانٹیں