رگِ جاں سُلگ رہی ہے
جیسے زندگی کم ہو رہی ہے
آسوُدگی کی جستُجو میں
موت قریب تر ہو رہی ہے
خواہشوں کی تکمیل میں
میری عمر تمام ہو رہی ہے
پھر بھی ہے لب پہ شکوہ
تیرے ساتھ زندگی برباد ہو رہی ہے
کیوں ہو کوئی مطمعین میرے افعال سے
رزق حلال میں تین وقت کی روٹی آ رہی ہے
شکر قنات کا دامن ہوتا نہیں اب شایَد
اسی لیے میرے بالوں کی سیاہی جا رہی ہے
مگر اکِ اطمینان ہے بابر مجھکو
ان کے جسموں سے رزقِ حلال کی خُشبو آ رہی ہے