آس کا دیپک بجھ نہ جائے
یارو سوچو کوئی اُپائے
سفر میں راہی بنا سرائے
کیسے اپنی رات بتائے
رات اندھیری سرد ہوائیں
جلتا ہے دل نیند نہ آئے
کالی رات کی آمد ہے کیا
قد سے لمبے ہوگئے سائے
تھک کے بیٹھ نہ جانا یارو
ٹوٹ کے پربت راہ میں آئے
دل کی ہر اک بات وہ جانے
کون ہماری چغلی کھائے
من اندر اک جنگل بیلا
دل خواہش کے پیڑ اُگائے
فہیم محبت نام ہے جس کا
پت جھڑ میں بھی پھول کھلائے