آغوش تیری آج بھی ماں ڈھونڈتا ہوں میں
تو مجھ سے ہو گئی ہے نہاں ڈھونڈتا ہوں
آئیں ہیں تیرے بعد بھی خوشیاں اگرچہ پاس
لیکن رہا ہوں تیرے لیے میں سدا اداس
وہ قہقہے رہے نہ وہ پہلے سا ہے قرار
یہ زندگی ہے یا کہ مسلسل ہے ایک یاس
تجھ سے کروں آ غم کو بیاں ، ڈھونڈتا ہوں میں
آغوش تیری آج بھی ماں ڈھونڈتا ہوں میں
بچپن مرا لوٹا دے مجھے پھر سے پیار کر
اسکول بھیجنے کے لیے پھر تیار کر
میں ضد کروں تو مجھ کو منا لینا پیار سے
گھر کو چمن بنا دے نئی اک بہار کر
اب ہر جگہ پہ تیرا نشاں ڈھونڈتا ہوں میں
آغوش تیری آج بھی ماں ڈھونڈتا ہوں میں
پڑ تی تھی غم کی دھوپ نہ جس کی دعاؤں سے
محروم ہو چکا ہوں اسی ٹھنڈی چھاؤں سے
آجا لپٹ کے تجھ سے میں رو لوں تو ایک بار
جی بھر کے پیار کر تو لوں ماں تیرے پاؤں سے
تیرا پتا میں پاؤں کہاں ڈھونڈتا ہوں میں
آغوش تیری آج بھی ماں ڈھونڈتا ہوں میں