کسی کی یاد میں نکل آئے ہمارے آنسو
ہم نے چکھے تو لگے بڑے کھارے آنسو
وقت رخصت جو اس نے پوچھا رونے کا سبب
کہا یہ تو بہہ رہے ہیں خوشی کہ مارے آنسو
رات بھر تیری یاد نے مجھے سونے نہ دیا
اب خاک نکلیں گے یہ نیند کے مارے آنسو
جب سے پینے لگا ہوں تیری آنکھوں کے جام
تب سے بیٹھے رہتے ہیں آنکھ کنارے آنسو
یہ اپنی ہمت تھی کہ اس بنھور سے نکل آئے
ورنہ ہمیں لے ڈوبتے اس کے دو دھارے آنسو
کسی پتھر دل کو بھی موم کر سکتے ہیں اصغر
معاشرے کی ستائی ہوئی عورت کے پیارے آنسو