آنکھوں میں تیرے درد کو تصویر کر لیا
دل آشنائے ہجر کو تقدیر کر لیا
ملتی نہیں ہے منزلِ مقصود جب تلک
میں نے سفر کو پاؤں کی زنجیر کر لیا
جس میں ہے تیری یاد کی خوشبو بسی ہوئی
اس ڈائری میں درد بھی تحریر کر لیا
اب انقلاب آئے گا لفظوں کی جنگ سے
میں نے بھی اپنے ذہن کو شمشیر کرلیا
ایسا نہ ہو کہ پھر یہ سمندر میں جا گرے
دریا کو میں آنکھ میں تسخیر کر لیا
وشمہ یہ وصل یار کے سب خواب چھوڑ کر
دل کی زمیں پہ ہجر کو جاگیر کر لیا