آنکھوں کے جھرنے پتھرائے لگتے ہیں
سارے منظر اب دھندلائے لگتے ہیں
اپنے چہرے کی شادابی ہوا ہوئی ہے
اور ہم کمہلائے کمہلائے لگتے ہیں
لگتا ہے جیون کی بہاریں بیت گئیں
خزاں رسیدہ اور زردائے لگتے ہیں
کہاں سے ہم لے آئیں بیتے لمحوں کو
جن کو پا کر سب اترائے لگتے ہیں
عظمٰی شاید وقت رخصت آ پہنچا ہے
یوں کہ ہم بولائے بولائے لگتے ہیں