آنے کا پتہ اور نہ جانے کا پتہ ہے
اے بےخبری، تیرے ٹھکانے کا پتہ ہے؟
دل میں ہے کسی لمحۂ تسکین کی خواہش
اور آنکھ میں اک خواب سہانے کا ہتہ ہے
اس حال میں یاں کیا ہو بھلا فکر شب و روز
اب دل کو تو بس رنج کمانے کا ہتہ ہے
اب شہر کے رستے بھی بہت پھیل گئے ہیں
اب کس کو یہاں کس کے ٹھکانے کا پتہ ہے
اس شورش ہجراں میں جو یہ راکھ بچی ہے
اس راکھ میں اک درد پرانے کا پتہ ہے
اس دور میں اتنا ہی غنیمت ہے ہمیں تو
اک وعدۂ شب یاد دلانے کا ہتہ ہے
کس طور سے ملتے ہیں صہیب اہل نگر بھی
جیسے کہ انہیں میرے فسانے کا پتہ ہے