زندگی میں کچھ کھویا اور کچھ پایا
لیکن تجھے کھونا نہیں چاہتا ماں
زندگی نے کبھی ہنسایا کبھی رولایا
لیکن تجھے رلانا نہیں چاہتا ماں
یاد آتی تیری بچپن کی وە لوری
اس لیے تیری گود کے سوا کہیں
اور کہیں سونا نہیں چاہتا ماں
لیکن تجھے کھونا نہیں چاہتا ماں
کتنا ڈھونڈا تھا تو نے بچپن میں
اب کیوں نہیں ڈونڈتی تو ماں
کیسے زندا رە پاوں گا تیرے بغیر
کبھی فرصت ملے مجھے یہ بتا ماں
کیا ہوں میں تیرے دل میں اب تک
دیکھ میرے دل کو چیر آپنے آپکو ماں
زندگی تو نے میری روشن کر دی
خود کس اندھیرے کھو گۂی تو ماں
کبھی تو کھلا مجھے آپنے ہاتھ کی روٹی
آج کل بھوک بہت لگتی ہے مجھے ماں
کہاں ہے تو ماں گلے لگا بےبس مسعود کو
نہ جانے کس کاش نکل جائے میری سانس ماں