آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں
نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
میں مجسم شبِ تنہائی ہوں
ہے سفر شرط مجھے پانے کی
میں کہ اک لالۂ صحرائی ہوں
سیدھے رستے پہ چلوں تو کیسے
بھولی بھٹکی ہوئی دانائی ہوں
مجھ سے خود کو نہ سمیٹا جائے
اور خدائی کا تمنائی ہوں
میرے ماضی کے اندھیروں پہ نہ جا
صبحِ آئندہ کی رعنائی ہوں
کاش یہ جانتا دشمن میرا
میں ہر انسان کا شیدائی ہوں
میں پہاڑوں کی خموشی ہوں ندیم
اور میں بحر کی گویائی ہوں