کہاں لہو لہو سے یہ پھول سارے
کہاں یہ راکھ راکھ چمن
کہاں وہ پیوند زدہ لباس والوں کی حاکمیت
کہاں زخموں سے چور چور یہ برہنہ بدن
انہیں گرد سفر میں گنوا چکے ہیں کہیں
جن کے پاؤں کی دھول تھی نوید صبح بہاراں
اب نہ زاد سفر ہے پاس اپنے، نہ رخ منزل کا کچھ پتہ ہے
نہ راہ میں کوئی امید یاراں، نہ پیٹھ پیچھے ہیں اشکباراں
زباں پہ قصے رواں دواں ہیں، اکابریں کے فرات جیسے
مگر کردار میں عمل کی کوئی جھلک ہے، نہ کوئی اشارہ
کہاں "اسفل السافلین" کی یہ منزل
کہاں بحر ظلمات کا وہ کنارہ
قول و عمل میں تضاد لئے بالآخر امت مسلم نے
خود اپنے پاؤں تلے عظمت آباء کچل دی
کہاں وہ نجات دہندہ قبلہ اول، کہاں یہ ضمیر فروش
تکریت نے تکریت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ریت بدل دی
خزاں میں بھی جو بہاروں سا مزاج رکھتا ہو
ملا کوئی ایسا چارہ گر، اے چارہ گر نہیں مجھ کو
کوفہ تو آ گیا ہے پھر یزیدیوں کے ہاتھ
غضب یہ کہ حسین بھی کہیں آتا نظر نہیں مجھ کو