اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے
ہم وہ پیاسے ہیں جو دریاؤں کو ترسائیں گے
خواب آئینے ہیں آنکھوں میں لیے پھرتے ہو
دھوپ میں چمکیں گے ٹوٹیں گے تو چبھ جائیں گے
نیند کی فاختہ سہمی ہوئی ہے آنکھوں میں
تیر یادوں کی کمین گاہوں سے پھر آئیں گے
صبح تک دل کے دریچوں کو کھلا رہنے دو
دردِ گمراہ فرشتے ہیں ، کہاں جائیں گے