اب سوچتا ہوں کاش تیری آرزو نہ کرتا
میں تجھ کو دیکھنے کی کبھی جستجو نہ کرتا
مجھ کو خبر جو ہوتی تیری بے رخی کی جاناں
میں مر تو جاتا تجھ سے کبھی گفتگو نہ کرتا
تو پتھر بن گیا ہے پہلے یہ جان لیتا
کوئی بھی بات دل کی تیرے روبرو نہ کرتا
گر تیرے لوٹ آنے کی تھوڑی امید ہوتی
میں دل کے ارمانوں کا اپنے لہو نہ کرتا
اب آیا ہے سمجھ میں اس عشق کا خلاصہ
میرے پاس زر جو ہوتا، بیوفائی تو نہ کرتا
تم نے کہا تو ہوتا میں بیوفا ہوں ساجد
تجھے بھول جاتا شاید آنکھیں نمو نہ کرتا