در اپنا کہیں پر ہے تو دیوار کہیں پر
اب ملنے ہمیں آئے گا دلدار کہیں پر
اب کون تجھے دیکھے گا چھپ چھپ کے جہاں سے
تڑپے گا ترے ہجر میں بیمار کہیں پر
اس دل میں ابھی ایک تمنا ہے پرانی
آئے گا کبھی ملنے جفا کار کہیں پر
کل ست وہ مری کال بھی سننے سے رہا ہے
مصرو ف بہت لگتا ہے غم خوار کہیں پر
اس عشق کی راہوں میں مشکل بھی بڑی ہے
اظہار کہیں پر ہے انکار کہیں پر
میں ہجر کی قیدی ہوں یا حالات کی ماری
وشمہ وہ ستم گر ہے وہ اس پار کہیں پر